حوزہ نیوز ایجنسی کے صحافی سے جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن آیت اللہ ابوالقاسم علی دوست نے انٹرویو میں ان سے پوچھے گئے اس سوال کہ " ہمارے معاشرے میں امر بالمعروف کیوں کم ہو گیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا: معاشرہ سے امر بالمعروف و نهی از منکر کے کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں اور اسی وجہ سے اس کے چند مختلف جوابات دئے جا سکتے ہیں۔
جاہلانہ رہنمائی، امر بالمعروف اور نهی از منکر ان تین امور کو ادارہ سازی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مذکورہ مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس مسئلے کے جواب کی تین اہم وجوہات ہیں کہ جن کی اکثر صاحب نظر افراد بھی تائید کرتے ہیں۔ مذکورہ تینوں امور کے غیر ادارہ سازی کی پہلی وجہ انقلاب اسلامی کے بعد کے زمانہ میں امر بالمعروف و نهی از منکر میں جاہلانہ رہنمائی کے عنصر کا پایا جانا ہے۔
حوزہ علمیہ کے اس استاد نے کہا: جب بھی قرآن کریم امر بالمعروف و نهی از منکر کا مسئلہ اٹھاتا ہے تو اس مسئلے کو عوامی فریضہ سمجھنے کے علاوہ اسے ایک ادارہ سازی کے طور پر سامنے لانے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے: « وَلتَکُن مِنکُم أُمَّةٌ یَدعونَ إِلَی الخَیرِ وَیَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَیَنهَونَ عَنِ المُنکَرِ ۚ وَأُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحونَ» "اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں۔"
آیت اللہ علی دوست نے کہا: سب مل کر نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے امور (امر بالمعروف و نهی از منکر) کو انجام دیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح و نجات پانے والے ہیں۔
امر بالمعروف کا حکم دینے والے افراد سب سے پہلے خود اس پر عمل کرنے والے بنیں
انہوں نے امر بالمعروف کرنے والے کے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرنے کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کا دوسرا عامل شمار کرتے ہوئے کہا: لوگ امر بالمعروف اور نہی از منکر جیسے عظیم فریضۂ دینی کو ایک ایسے شخص کی طرف سے انجام پاتا دیکھیں جو خود سب سے پہلے ان امور کو اپنے اوپر جاری کرتا ہو (تو اس کی تاثیر ہو گی)۔
جامعہ مدرسین کے رکن نے کہا: اسی طرح سے لوگ نہی از منکر کرنا بھی ایسے فرد سے ملاحظہ کریں جو خود ان برے امور سے رکتا ہو۔ چونکہ جب بھی فریضۂ امر بالمعروف اور نہی از منکر کسی ایسے فرد یا مسؤل سے مشاہدہ کیا جائے گا جو خود ان کی پاسداری نہیں کرتا تو فرائض الہی پر عمل بھی سست اور کمزور ہوتا جائے گا۔
امر بالمعروف کے فریضے کے ادارہ سازی نہ ہو سکنے کی وجہ اس فریضہ کو عملی کرنے والوں کا آپس میں ہم آہنگی کا فقدان ہے
حوزہ علمیہ کے اس استاد نے امر بالمعروف کے فریضے کے ادارہ سازی نہ ہو سکنے کی وجہ اس فریضہ کو عملی کرنے والوں کا آپس میں ہم آہنگی کے فقدان کو دوسرا عامل شمار کرتے ہوئے کہا: امر بالمعروف کے معاشرہ میں رائج ہونے کے لئے مختلف طبقات کے افراد کو آپس میں ہم آہنگ ہونا پڑے گا کہ جو اب تک بدقسمتی سے ہو نہیں پایا ہے۔ اگر ہمارے پاس ایسا معاشرہ ہوتا جس میں بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح کم ہوتی، اگر ہمارے پاس ہر ہفتے اور ہر مہینے غبن کا مسئلہ نہ ہوتا ، اگر ہمارے پاس ایک دوسرے پر پل پڑنے کا مسئلہ نہ ہوتا اور اگر ہمارے ہاں ایک دوسرے کے ادب کا خیال رکھا جاتا تو آیا پھر بھی فریضۂ امر بالمعروف اور نہی از منکر معاشرہ میں کم رنگ ہوتا دکھائی دیتا ؟
آیت اللہ علی دوست نے مزید کہا: مختلف عوامل فریضۂ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی انجام دہی میں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے فریضۂ امر بالمعروف اور نہی از منکر کے مسئلے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا:صرف ایک مکالماتی نشست میں معاشرے میں ان دو الہی فرائض کے ادارہ سازی کے لیے جامع حل پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
ماہرین کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن نے آخر میں نظام اسلامی کے مختلف شعبوں میں موجود باصلاحیت ماہرین افراد اور محققین کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: "میرے لیے افسوسناک بات یہ ہے کہ آخر کیوں نظام اسلامی میں موجود ماہرین افراد کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جاتا ہے؟ اسلامی ملک میں مختلف طبقات کے ماہرین افراد کو بھی چاہئے کہ وہ امربالمعروف اور نہی از منکر جیسے فریضہ کے انجام دہی میں آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اسلامی ملک میں خوشبختی اور کامیابی کی جھلک نظر آئے۔